Breaking

Post Top Ad

Your Ad Spot

Thursday, March 26, 2020

ایسی بھی ایک عید Aisi Bhi Ek Eid

ندیم راعی 

198-Choudhury House
GulSheed.
Moradabad-244001(U.P)

  ایسی بھی ایک عید 

جلدی جلدی تیار ہو جاؤ نماز کو دیر ہو رہی ہے۔ اعجازؔ تم ابھی جمائیاں ہی لے رہے ہو۔ جاؤ غسل خانہ خالی ہو گیا فارغ ہو جاؤ میں تمہارے پائجامے میں کمر بند ڈالتی ہوں۔ کپڑوں پر تو صغریٰ نے پریس کردی ہے۔ اعجاز کے ابو آپ توکچھ زیادہ تساہلی سے کام لیتے ہیں۔ ابھی تک اخبار میں ہی اٹکے ہوئے ہیں جلدی کرو کپڑے پہن کر تیار ہو جاؤ۔ کیا امسال بھی عید گاہ کے باہر سڑک پر نماز عید ادا کرکے گھر واپس آنا ہے۔ اگر عید گاہ کے اندر کی صفوں میں نماز اداکرو گے تو باآسانی عید گاہ کے پیچھے والے راستے سے گھر جلدی واپس آجاؤ گے۔ اور پھر نغمہ کو ڈاکٹر کے یہاں بھی تو لے جانا ہے۔جو رات اپنا پیر جلا بیٹھی جس کے جلے پیر پر گیلاآٹاکر کے لگایا ہے۔ جس سے وقتی آرام تو ملا لیکن وہ ابھی تک جلن و درد سے تڑپ رہی ہے۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ اس کا پیر ہی جلا خدا نخواستہ چنگاری چہرے پر آجاتی تو کیا ہوتا۔ میں کتنی بار کہہ چکی ہوں کہ اس لکڑی کے بارودے کی انگیٹھی سے مجھے نجات دلاؤ اور گیس چولہا اور کنکشن لے لو جبکہ بلّے بھائی گیس والے آپ کے کلاس فیلو رہ چکے ہیں۔ جن کے ذریعہ سلنڈر و گیس کنکشن بہ آسانی مل سکتا ہے۔ لیکن آپ کے ہر کام میں تساہلی اور لاپرواہی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔
اعجاز اوروقار اپنے ابو کے ہمراہ قدرے تاخیر سے نماز عید ادا کرنے کے لئے گھر سے عید گاہ کی طرف نکل چکے تھے۔ میں اور صغریٰ باورچی خانے میں شیر سوئیاں بنانے میں مصروف تھیں۔ نغمہ بدستور جلن سے کراہ رہی تھی۔ اعجاز کے ابو گذشتہ رات قریب ۲؍بجے کانپور سے واپس آئے تھے گھر کے لئے ضرورت کی اشیاء اور بچوں کے عید کے کپڑے ساتھ لائے تھے۔ اس وقت میں لکڑی کے بارودے کی انگیٹھی پر دہی برے بنا رہی تھی۔ شدت کی گرمی کی وجہ سے انگیٹھی آنگن میں رکھ لی تھی۔ اعجاز کے ابو جیسے ہی آئے میںان کے پاس آگئی کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر ہم دونوں کانپور سے لائے بچوں کے کپڑے دیکھنے لگے ہماری آواز سن کر ہماری دو سالہ بیٹی نغمہ جاگ گئی تھی وہ چار پائی سے اتر کر جیسے ہماری طرف آئی انگیٹھی سے باہر جلتی ہوئی لکڑی پر اس کا پیر پڑ گیا۔ اور وہ چیخ پڑی ہم دونوں نے فوراً اسے اٹھا لیا ۔
تمہارے چچا اعجاز اوروقار کہاں رہ گئے۔ وہ ابھی تک کیوں نہیں آئے 

یہ افراتفری شور شرابہ کیسا ہے۔ ؟میں ہر اس شخص سے دیوانہ وار معلوم کر رہی تھی جو عید گاہ سے واپس ہو رہا تھا۔ ہر اک بدحواسی کے عالم میں تھا ڈر و خوف ان کے چہروں سے صاف عیاں تھا۔ اعجاز کے بڑے پاپا بھی پریشانی کے عالم میں کبھی گھر کے باہر جا رہے تھے اور کبھی اندر آکر اماں کو دلاسہ دیتے اماں جان اعجاز و قار اپنے چھوٹے بیٹے کے ابھی تک عید گاہ سے واپس نہ آنے کے لئے فکر مند تھیں اور ہر کسی سے معلوم کر رہی تھیں کہ عید گاہ میں کیا ہو گیا ایسی کون سی آفت ٹوٹ پڑی کیسا فساد بپا ہوا یہ فساد کس نے پھیلایا۔۔۔۔۔۔۔؟
چشم دید نمازیوں سے معلوم ہوا کہ عید گاہ کے باہر سڑک پر نماز عید ادا کرنے والے نمازیوں کی صفوں کے بیچوں بیچ ایک کیچڑ سے لت پت سور(خنزیر) گزر گیا۔ بعدہ‘ نمازیوں نے اپنے پیچھے کھڑے پی اے سی کے جوانوں سے احتجاجاً کچھ کہا ان کے درمیان کہا سنی نے طول پکڑ لیا اور انھوں نے نمازیوں پر اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کر دیں ۔ سیکڑوں نمازی جاں بحق اور سیکڑوں بچے بوڑھے بھگڈر میں ہلاک ہو گئے۔۔۔۔۔۔ کیا اعجاز کے ابو اور ۔۔۔۔۔۔نہیں نہیں وہ بس آتے ہی ہونگے۔۔۔۔۔۔؟
نمازیوں نے بتایا کہ بھگڈر میں جو گر گیا اُسے اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ نمازی ڈر و خوف سے محفوظ جگہوں کی طرف بھاگ رہے تھے۔ لاجپت نگر ، گاندھی نگر سے گذر کر نمازی اپنے اپنے گھروں تک پہونچے لیکن اعجاز کے ابو اعجاز و قار کہاں رہ گئے۔۔۔۔۔۔۔ وہ ابھی تک کیوں نہیں آئے۔۔۔۔۔۔؟دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا اور سڑکوں پر پی اے سی کا گشت ہونے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ رات ہو چکی تھی سڑکوں پر سناٹا پسرا ہوا تھا۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ ماسوا کتے و دیگر جانور وںکے البتہ کچھ کچھ وقفے بعد پی اے سی کے جوان گشت لگا رہے تھے۔ میں ٹکٹکی باندھے عید گاہ کی سمت سے آنے والی سڑک دیکھ رہی تھی کہ کہیں سے میرے لختِ جگر اور میرے سرتاج نظر آجائیں۔ نغمہ کی تکلیف بھی بڑھ رہی تھی میری آنکھوں تلے اندھیرا چھایا ہو اتھا۔ لمحہ لمحہ ان کے آنے کی آہٹ ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔رات یوں ہی آنکھوں آنکھوں میں گزر گئی ادھر نغمہ کا رونا بھی
بند نہیں ہوا جیسے تیسے کہیں سے بر نول دستیاب ہوا تب کہیں جاکر اسے آرام ملا اور رونے کا سلسلہ ختم ہوا۔ لیکن میری دنیا تو لٹتی نظر آرہی تھی۔ دو بیٹے اور شوہر تینوں عید گاہ سے واپس نہیں آئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ نہ کرے۔۔۔۔؟ میرے بچوں کی سونے جڑی عمر ہو اور اعجاز کے ابو کو میری عمر بھی لگ جائے۔۔۔۔۔۔۔؟
مساجد کے تمام لاؤڈ اسپیکر خموش تھے صبح ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ایک ایک لمحہ اک اک سال کی طرح گزر رہا تھا۔ تا ہم ہر اندھیری رات کی صبح نمودار ہوتی ہے اور اس گھنگھور اندھیرے کو چیرتی سورج کی کرنیںنمودار ہو چکی تھیں۔ کرفیو جاری تھا۔ افواہوں کا بازار گرم تھا جھوٹی سچی کہانیاں گشت کر رہی تھیں۔ چھٹ پٹ وارداتیں ہونے کی خبریں لگاتار آرہی تھیں لیکن اعجاز کے ابو، اعجاز و وقار کے آنے کی نہ کوئی خبر تھی اور نہ ان کو تلاش کرنے کے راستے استوار تھے۔
آج یومِ آزادی ہونے کے باوجود ہم سب کرفیو میں مقید تھے۔ ملک کے وزیر اعظم نے دلّی کے لال قلعہ کی فصیل سے دو دن قبل یہاں کی عید گاہ میں نہتے نمازیوں پر پی اے سی کے ذریعہ گولیاں چلانے کے بعد فساد بپا ہونے پر ہندو مسلم کو مل جل کر محبت کے ساتھ رہنے کی تلقین کی تھی۔۔۔۔۔۔۔ یہاں کے لوگ تو ہمیشہ سے ہی ساتھ رہتے آئے ہیں۔ یہاں کا کاروبار بھی ایک دوسرے کے بغیر ادھورا ہے یعنی دونوں لازم و ملزوم ہیں پھر وزیر اعظم ہند نے مل جل کر رہنے کی بات کیوں کہی۔؟ تصادم تو پولس پی اے سی کے نہتے نمازیوں پر گولیاں چلانے سے ہوا ہے یہ فساد ہندو مسلم میں نہیں بلکہ مسلم و انتظامیہ کے بیچ تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو ہزاروں نمازی عید گاہ سے نکل کر گاندھی نگر، لاجپت نگر، چوراسی گھنٹہ، بانس منڈی، مندر والی گلی سے ہوکر اپنے اپنے گھروں کو محفوظ واپس نہ آتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچانک ہی شہر میں فرقہ وارانہ فساد کاماحول پید اہو گیا تھا۔ اب نئی طرز کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔ شاہی مسجد کے آس پاس کی دکانوں کے تالے توڑ کر مال و اسباب لوٹ لیا۔ چوراسی گھنٹے کے قرب وجوار کی دکانوں میں آگ لگا دی گئی وغیرہ اب ہلکی پھلکی جھڑپیں دونوں فرقوں میں شروع ہو گئیں۔ کرفیو اور خطرناک حالات اختیار کر گیا تھاپی اے سی و مقامی پولس کی جانبدارانہ پولیسی اور یکطرفہ کارروائی نے فساد کو اور فروغ دیا تھا۔ اقلیتوں کے گھروں کی تلاشی کے نام پر انہیں زود وکوب کیا جانے لگا ۔ بے گناہوں کو گرفتار کرکے حوالات بھیجا جانے لگا۔ تناؤمسلسل بڑھتا جا رہا تھا۔ انتظامیہ کی یکطرفہ جانبدارانہ کارروائی نے چھٹ پٹ وارداتوں کا سلسلہ دراز کر دیا تھا۔ مار کاٹ ، لوٹ پاٹ اب بھی جاری تھی۔۔۔۔۔۔۔۔عید گاہ کے نمازیوں کی لاشوں کا کچھ اتہ پتہ نہیں تھا اور نہ ہی انہیں شمار کیا گیا تھا۔ انتظامیہ نے ان لاشوں کو نہ جانے کہاں ٹھکانے لگایا تھا۔ گم شدہ نمازیوں میں کسی کی لاش ان کے وارثین کو نہیں سونپی گئی تھی اور کرفیو کی وجہ سے وارثین بھی ان کی کھوج خبر کے لئے اپنے گھروں سے نہیں نکل پا رہے تھے۔ ان بدنصیبوں میں ایک میں بھی شامل تھی۔جس کے دو جوانعمر بیٹے اور شوہر عید گاہ سے واپس نہیں آئے تھے۔ خدا جانے وہ تینوں کس حال میں ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔کیا وہ دوسرے راستوں سے نکل کر کہیں محفوظ جگہ تو نہ چلے گئے۔۔۔۔۔۔یا پھر۔۔۔۔۔۔۔؟یہ سوچ کر جسم کانپنے لگتا ۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھا جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ان کا پتہ کس طرح چلے۔ان کے بارے میں کہیں کوئی خبر بھی موصول نہیں ہوئی۔
آج تین دن ہو گئے میںنے اور صغریٰ نے ایک لقمہ تک نہیں اٹھایا۔ نغمہ بھی اپنی توتلی زبان میں ابو بھیا۔۔۔۔۔دوا۔۔۔۔۔؟ میں اس بے زبان کو اپنے سینے سے لگا لیتی اماں کا روتے روتے برا حال تھا۔ وہ بار بار اپنے بڑے بیٹے سے باہر جاکر اپنے بھائی اور بھتیجوں کو ڈھونڈ کر لانے کو کہہ رہی تھیں لیکن وہ ضبط کے آنسو پیکر رہ جاتے۔ آج صبح ہی ہمارے پاس کی گلی کے آخری مکان کے ساکن نیتا یونس کو پولس پکڑ کر لے گئی۔ سنا ہے کہ پولس نے ان کو ایسی مار ماری ہے کہ چلنا پھر نا دشوار ہو گیا ہے بعدہ‘ انھیں فساد بپا کرنے کے جرم میں جیل بھیج دیا ۔ اعجاز و قار کے بڑے ابو کا نام بھی فسادیوں کی لسٹ میںنامزد تھا وہ بھی پولس سے بچ کر ادھر اُدھر آجارہے تھے۔ ان کو تلاشتی ہوئی پولس ہمارے گھر تک آگئی تھی۔ پولس پی اے سی اور کچھ شرپسندوں نے کرفیو نافذ ہونے کے بعد اقلیتوں کے گھروں میں گھس گھس کر ان کی املاک لوٹنی شروع کر دی اور جو بھی ہاتھ لگتا۔ اسے وہ قتل کردیتے یا پھر نذر آتش۔۔۔۔۔۔ہمارے گھر سے چوتھے گھر میں تمام مردو زن اپنا گھر چھوڑ کر پیچھے کی جانب کسی محفوظ جگہ منتقل ہو گئے لیکن ان کی بوڑھی ماں وہیں رہیں تلاشی کے بہانے پولس پی اے سی اور شرپسندوں نے اس بوڑھی عورت کو جلاکر ہلاک کر دیا اور تمام مال متاع لوٹ کر لے گئے۔ جن کو کچھ مقامی نیتاؤں نے ڈی ایم سے اجازت لے کر قریب کے قبرستان میں دفن کیا۔ یہ سب جان کر میں پل پل مر رہی تھی کہیں میرے سرتاج اور اعجاز وقار۔۔۔۔۔نہیں نہیں ایسا ہر گز نہیں ہوا ہوگا۔ وہ تینوں یقینا کسی محفوظ جگہ پر محفوظ ہوں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ایسا کیسے کر سکتا ہے کہ وہ یکسر میری پوری دنیا ہی اجاڑ دے۔ اور پھر اعجاز کے بڑے ابو انھیں تلاش کر رہے ہیں۔ پیچھے محلے کے حاجی امجد علی کے یہاں سے فون کے ذریعہ انھوںنے ایس ایس پی کو ان تینوں کی گم شدگی کی رپورٹ درج کرادی ہے اور آس پاس کے شہروں کے عزیز و اقرباء سے فون پر ان کے بارے میں معلومات کر رہے ہیں۔ اور پھر میں یہ سوچ کر اپنے غم کو ہلکا کر لیتی کہ میری طرح کتنے ہونگے جن کے اپنے اس خونی عید گاہ سے واپس نہیں آئے۔ یا پھر شہید ہو گئے جن کی آخری رسوم بھی ان کے وارثین نے ادا نہ کیں۔ یا میری طرح اپنوں کے لئے انتظار کر رہے ہیں۔
شرپسند مقامی پولس اور پی اے سی کے ساتھ مل کر ظلم و تشدد بپا کئے ہوئے تھے۔ تقریباً ہر محلے کے اقلیتوں کے گھروں میں تلاشی کے بہانے چھاپہ ماری کرتے اور ان کی املاک لوٹنے کے بعد بے قصوراور نوجوان لڑکوں کو جیل بھیج دیتے۔ کرفیو ۔۔۔۔۔۔۔۔جاری تھا۔ دودھ سبزی کی ضرورتیں پوری نہیں ہو رہی تھیں البتہ پی اے سی کی نگرانی میں پراگ دودھ ڈیری کے ذریعہ دودھ کی تقسیم کی جا رہی تھی ۔ لیکن یہ تقسیم صرف لب سڑک کے افراد کے لئے محدود تھی گلی کوچوں میں یہ سہولت فراہم نہیں تھی لیکن ادھر ادھرسے ان تک بھی دودھ پہنچ رہا تھا۔
دس دن کے بعد آج کرفیو میں صرف دو گھنٹے کی ڈھیل دی گئی گھر میں اعجاز کے بڑے ابواور اُن کے بیٹے پہلے سے ہی پیچھے کے راستے سے محفوظ جگہ چلے گئے تھے۔ لہٰذا مجھے تن تنہا پولس اسٹیشن جانا پڑا اور اعجاز کے ابو ، اعجاز وقار کی گم شدگی کی ایف آئی آردرج کرائی۔ واپسی میں تھوڑی سبزی و دودھ و کھانے پینے کی کچھ اشیاء لے کر جیسے ہی گھر پہنچی کرفیو پھر نافذ ہو گیا تھا۔ خبر آئی کہ ریلوے اسٹیشن کے پاس شرپسندوں نے دونوجوان لڑکوں کوقتل کر دیاہے۔ تناؤ اور بڑھ گیا جس نے ہمیں پوری طرح اپنے حصار میں لے لیا تھا۔
دو ہفتے گزرنے کے بعد بھی شہر کے حالات قابو میں نہیں تھے۔ خون خرابہ لوٹ مار اور آتش زنی مسلسل جاری تھی۔ ظروف ایکسپورٹ کا کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔ انتظامیہ کی جانب داری جگ ظاہر تھی آخر کار حکومت اترپردیش نے شہر کا کنٹرول بورڈر سیکورٹی فورسیز کو سونپ دیا۔ بی ایس ایف کی مستعدی وغیر جانبدارنہ رویہ سے آہستہ آہستہ شہر میں امن و امان قائم ہونے لگا خون خرابہ لوٹ مار ، آتشزنی کا اختتام ہو گیا تھا کرفیومیں پورے دن کی ڈھیل ہو گئی تھی۔رہ رہ کر اعجاز کے ابو، اعجاز و وقار کی یاد ستا رہی تھی۔ اللہ جانے کہاں ہونگے کس حال میں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر دراز کرے میرے دونوں پھول سے بیٹے اعجاز تو میرے بغیر ایک پل بھی رہنا نہیں چاہتا اور وقار بھی ہمہ وقت میرے پلو سے بندھا رہتا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو بے حد پیار کرتے اور ایکساتھ ہی رہنا پسند کرتے اور مجھ سے الگ بھی ہوئے تو ایک ساتھ۔۔۔۔۔۔ اللہ ان کی جوڑی سلامت رکھے اور ہم دونوں میاں بیوی کی جوڑی بھی بنائے رکھے۔۔۔۔۔۔ ان کے ساتھ گزارا ایک ایک لمحہ ذہن و دل پر بازگشت کر رہا تھا کتنے بے وفا ہو گئے ہیں یہ ان کو اگر میری فکر نہیں ہے تو کم از کم اپنی چہیتی بیٹی نغمہ جو زخمی ہے کی توخیر خبر لے لیں، صغریٰ کا حال تو جانیں اس کے لباس کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے کم از کم اسے اپنے پسندیدہ لباس میں تو دیکھ لیتے، اعجاز ووقار کی موڈرن شرٹ اور جینز جسے آپ بڑے چاؤ سے لائے تھے انہیں پہنا کر تو دیکھ لیتے اور کتنی حسرت تھی آپ کو مجھے گاؤ ن میں دیکھنے کی للہ آکر دیکھ لیں کہ میں گاؤن زیب تن کئے کیسی لگتی ہوں۔
اعجاز کے ابو آج صغریٰ کی شادی ہے دس سال ہو گئے ہیں آپ کو ہم سے بچھڑے ہوئے آج تو آجاؤ اپنی چہیتی نہ سہی میری چہیتی بیٹی کو رخصت کرنے۔۔۔۔۔۔۔ میرے دونوں لخت جگر کو بھی اپنے ساتھ لے آؤ ان دونوں کی جینز اور شرٹ میں نے پھر سے پریس کر دی ہیں۔ اور یقین جانئے آپ آئیں گے تو میں گاؤن پہنو گی۔ نغمہ بھی اب بڑی ہوتی جار ہی ہے۔ اپنے بھائیوں اور آپ کو بے تحاشہ یاد کرتی ہے اور صغریٰ تو زارو قطار روئے جا رہی ہے۔ اسکے آنسوؤں سے میرا دل دہلا جا رہا ہے۔ کہیں اس سیلاب میں میرا وجود نہ بہہ جائے۔ آپ کے بغیر یہ دس سال کس طرح گزارے کیسے کیسے ان دونوں بیٹیوں کو تعلیم سے آراستہ کیا کن کن آفات کا سامنا کرکے ان کی پرورش کی اور یہ پرایا دھن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پرایا ہونے جا رہا ہے ۔
میں اس کی جدائی کیسے برداشت کروں گی آج تو آپ میرا ساتھ نبھاؤ۔ آجاؤ ہم سب مل کر اسے رخصت کریں اور اس کی نئی زندگی کے لئے دعائیں دیں۔
لواب یہ آخری فرض بھی ادا ہونے کو ہے آج آپ کی لاڈلی و چہیتی بیٹی نغمہ کی شادی ہے آج نغمہ بھی پرائی ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔میرے بیٹے بھی ماشاء اللہ کسی نوکری یا کاروبار سے منسلک ہو گئے ہوں گے کیا آپ نے ان کی شادی رچائی بہوئیں لائے یا پھر انھیں یوں ہی کنوارا رکھا ہے۔ آپ آجاؤ انھیں بھی ساتھ لے آؤ میں نے دو چاند سی بہوئیں ان کے لئے تلاش کر لی ہیں دونوں سگی بہنیں ہیں ان کے والدین سے بھی بات پکی کر لی ہے اب صغریٰ نغمہ تو اپنے اپنے گھر کی ہو گئیں میں اکیلے کیسے جی پاؤں گی کون میری دیکھ بھال کر ے گا۔۔۔۔۔ ساسو ماں کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا ہے۔ اعجاز کے بڑے ابو نقل مکانی کرکے بہت پہلے دہلی کے ساکن ہو گئے ہیں۔
۳۶؍سال ہو گئے ہیں میرے سرتاج، اعجاز و قار کو عید کی نماز پڑھنے عید گاہ گئے جو اس خونی عید گاہ سے واپس نہیں آئے۔ لیکن میں آخری سانس تک ان کا انتظار کروں گی۔ شاید میری آخری سانس بھی مجھ سے بہت قریب نظر آنے لگی ہے۔
شاید یہ شام میری زندگی کی آخری شام ہو۔ صغریٰ نغمہ داماد نواسی نواسے میرے ارد گرد ہیں ان کے افسردہ چہروں کی لکیروں میں اپنی آخری سانس کی لیکر دیکھ رہی ہوں۔ میں آپ کی منتظر ہوں اللہ کے واسطے اب تو آجاؤ اپنی بیٹیوں داماد نواسی نواسوں سے مل لو۔۔۔۔۔۔۔۔بہر حال آپ جہاں بھی ہوں بخیر و عافیت سے ہوں۔ میرے دونوں بیٹے بھی خوش و خرم سلامت ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن میرا انتظار ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ میں تا قیامت آپ
کا انتظار کروں گی۔
 

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages