Breaking

Post Top Ad

Your Ad Spot

Thursday, March 26, 2020

اسرار نسیمی کے اسرار ِ شاعری Asraar Naseemi Ke Asraare SHayeri

ڈاکٹر الف ناظم 

اسسٹنٹ پروفیسر،گورنمنٹ ویمن پی۔جی۔ کالج ،رام پور

 اسرار نسیمی  کے اسرار ِ شاعری 

مجھے اسرار نسیمی کی شاعری پر اظہار خیال کرنا ہے۔میرے سامنے نہ تو الطاف حسین حالیؔ کے ذریعہ مغرب سے مستعاراصول ہیں جن کی کسوٹی پر میں غزل کو بے وقت کی راگنی قرار دے سکوں،نہ ترقی پسندوں کا مینی فیسٹو ہے کہ میں کسی فن پارے کی قدر و قیمت کا تعین کرنے کے لئے اس میں مزدوروں کے پسینے کی بوندوں کو معیار بناؤں اور نہ جدیدیت کا وہ سخت گیر رویہ ہے جس کے تحت ابہام اور علامتوں کی نشان دہی کر کے سمجھ میں نہ آنے والی شاعری کو اعلیٰ قدر دے سکوں اور نہ مابعد جدید تخلیقی رویوں کے پیش نظر تکثیریت کے فلسفے اور ساختیات کی نئی لہر دریافت کرنے کی مجبوری ہے۔ میرے سامنے ایک ایسے فن کار کا کلام ہے جس نے ان تمام رجحانا ت سے مبرا ہو کر براہ راست زندگی کے مسائل سے تخلیقی معاملہ کیا ہے اور اپنے تجربات و مشاہدات کو بے کم و کاست الفاظ میں سمویا ہے جو کبھی ہمیں غموں کی دھوپ میں تپ کر نکھرنے کا صلہ دیتے ہیں، کبھی آمدِ فصل بہاراں کی بشارت دے کر امید کی کلیاں کھلاتے ہیں اور کبھی رومانی اور جمالیاتی فضا تعمیر کر کے جلوۂ جاناں کی تصویر کشی کے ذریعہ اپنے احساسِ جمال کی ترجمانی کرتے ہیں۔
جہاں میں زندگی کا راز ہم نے اس قدر جانا ۔غموں کی دھوپ میں دن رات تپنا اور نکھر جانا 
پیڑ سے ٹوٹ کے گرتے ہوئے پیلے پتے۔آمدِ فصل بہاراں کا پتہ دیتے ہیں
جب تک نہ اس کا چاند سا چہرہ دکھائی دے ۔شیرازۂ حیات بکھرتا دکھائی دے 
اِدھر اسرار مشتاق ِ نظارہ۔اُدھر بے زار وہ ذوقِ نظر سے
اب اس قسم کی شاعری پر کوئی بھلا کیا لیول چسپاں کرے گا۔ یہ اشعار تو نہ کسی ازم کی پیداوار ہیں اور نہ کسی رجحان یا رویے کے پابند اور نہ مابعد جدید تکثیری فلسفے کی بو قلمونی کا اشتہار ہیں۔بلکہ ان کی جڑیں اسی معاشرے میں پیوست ہیں جس میں شاعر سانس لیتا ہے۔ اس لئے ان میں جو قدریں ہیں یا ان کے زوال کی جو صورتیں ہیں اور جو مسائل ہیں وہ اسی معاشرے کی پیداوار ہیں۔کوئی بھی شاعر عصری آگہی سے روگردانی نہیں کرسکتاہے۔ لیکن اگر وہ انہیں مخصوص چشمے سے دیکھتا ہے تو محض ایک ہی پہلو پیش نظر رہے گا۔اس میں تنوع اور رنگا رنگی کے امکانات کم سے کم ہوجاتے ہیں۔
اسرار بھائی سے تقریباً بیس برس پہلے ملاقات ہوئی تھی ۔رفتہ رفتہ یہ 

قربت بڑے بھائی کے درجے تک پہنچ چکی ہے۔لیکن میں انھیں خیر اندیش ہی نہیں ایک بے لوث اورمخلص دوست کے ساتھ ساتھ اپنا ادبی سرپرست بھی تصور کرتا ہوں۔ اس دوران میں نے انھیں ریڈیو پر سنا ،ٹی۔وی پر دیکھا اور ان کی نظامت میں کامیاب مشاعروں سے لطف اندوز بھی ہونے کا موقع میسر آیا۔ کلاسیکی ترنم میں ان کے پڑھنے اور مشاعروں میں شاعر کو آواز دینے کے انداز کو میں نے ہمیشہ رشک کی نظروں سے دیکھا ہے ۔ان کی سادگی،منکسر المزاجی اور اپنائیت نے مجھے اپناگرویدہ بنا لیا۔ وہ دور میری طالب علمی کا تھا۔بعد میں جب میں مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے دہلی گیا تو میں سمجھا کہ اب سلسلہ منقطع ہو گیا ہے لیکن اسرار بھائی نے ایسا ہونے نہیں دیا۔ اسرار بھائی کی بہت سی خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دوست و احباب کو یاد کرتے رہتے ہیں اور صارفیت کے دور میں یہ کوئی معمولی بات نہیںہے۔ اکثر خاص موقعوں بالخصوص تہواروں پر وہ فون ضرور کرتے ۔ مجھے بے حد خوشی ہو تی اور کبھی کبھار خفت بھی ہوتی کہ آیا میری بھی کوئی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ایک ہی ہاتھ سے تالی کب تک بجے گی ،مگر اسرار بھائی ان سب باتوں سے بے نیازایک سر پرست کی حیثیت سے نہ صرف اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے رہے بلکہ قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے۔ در اصل اسرار بھائی کی محبت غیر مشروط ہے۔وہ اس قسم کے معاملات میں شکایت کے قائل نہیں ہیں،سو اس طرح میں مسلسل ان سے رابطے میں رہا۔ چنانچہ ان کی علمی و ادبی سرگرمیاں مستقل مجھے اپنے دائرۂ اثر میں لئے ہوئے ہیں اور میں ان سے تحریک حاصل کرتا رہتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دلوں میں بہت جلد گھر پیدا کر لیتے ہیں ۔انھوں نے خود اپنا ہی شعر اوڑھ لیا ہے:
کام کچھ ایسا کریں ہر دل میں گھر پیدا کریں
 اس عمل سے نام اپنا عمر بھر پیدا کریں
اسرار بھائی کا پہلا شعری مجموعہ’’روشنی خیالوں کی‘‘۲۰۰۵ء؁ میں منظر عام پر آیا تھا۔جس روز مجھے یہ مجموعہ ڈاک سے موصول ہوا اسی روز مجھے سفر پر روانہ ہونا تھا لہٰذا میں نے اسے زادِ سفر کے طور پر بیگ میں رکھ لیا۔ ٹرین کے کمپارٹمنٹ میں لائٹ مدھم ہونے کے باوجود وہ رات ’’لفظوں کی روشنی ‘‘میں کٹی۔ اس مجموعے
کے دو شعر اب بھی میرے حافظے میں محفوظ ہیں:
گفتگو نرم کرو پھولوں کی مانند رہو۔میٹھی بولی ہوتو پتھر بھی پگھل جاتے ہیں 
پیڑ سے ٹوٹ کے گرتے ہوئے پیلے پتے ۔آمدِ فصل بہاراں کا پتہ دیتے ہیں 
ظاہر ہے کہ اشعار وہی یاد رہ جاتے ہیں جن میںذہنوں کو مسحور کرنے اور سفر کرنے کی صلاحیت موجود ہو تی ہے۔مجھے اس مجموعے میں ایسے کئی اشعار پڑھنے کو ملے جو ہماری یاد داشت کا مستقل حصہ بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پہلا شعر ایک پیغام ہے جو کسی سادھو سنت مہاتما کے دل کی صدا یا حضرتِ خضر ؑ کے ہونٹوں پہ نمودار ہو،جو دل سے نکل کر دل میں اثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔دوسرا شعر رجائی لہجے کی بہترین مثال ہے ۔ وہ ہر حال میں پُر اُمید رہنے کو ہی فلسفہٗ حیات تصور کرتے ہیں۔ حالات سے گھبرانے کے بجائے حالات پر نظر رکھیں تو یقینا منزل قدم چومے گی۔ پیڑ سے ٹوٹ کر گرتے ہوئے پیلے پتے ایک متحرک تصویر پیش کرتے ہیں ۔پت جھڑ میں پیلے پتوں کے گرنے کا منظراور پھر اس کے بعد سونی شاخوں پرمعصوم کونپلوں کی بہار تصور سے ہی دل جھوم اٹھتا ہے۔ 
اسرار بھائی عصری حسیت کے رمز شناس ہیں۔وہ تہذیبی قدروں کے زوال، ثقافتی افراط و تفریط، سماجی نا ہمواریوں ،سیاسی ریشہ دوانیوں ،عدالتی نا انصافیوں اور حالات کی ستم ظریفیوں کو اپنے شعور کا حصہ بنا کر پوری سچائی اور شائستگی کے ساتھ الفاظ میں سمودیتے ہیں ،جن میں احتجاج کے پہلو بھی ہیں اور تعمیر کا جذبہ بھی۔
نئے دستور ہوتے جارہے ہیں۔پرانے دور ہوتے جارہے ہیں
زباں پہ دوستی اور دل میںدشمنی کا سفر۔بڑا عجیب ہے دنیا میں آدمی کا سفر
وقت ناساز گار لگتا ہے۔عہد نا پائدار لگتا ہے
منصفِ وقت بھی ہیں فرقہ پرستی کا شکار۔آدمی دیکھ کے قانون بدل جاتے ہیں 
موجودہ معاشرہ تیزی سے شکست و ریخت کے عمل سے گزر رہا ہے، آمریت اور سیاسی جبر و استبداد کا جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس سے ہر ذی ہوش شخص انگشت بدنداں ہے ۔شاعر تویوں بھی معاشرے کاحساس ترین فرد ہوتا ہے وہ بھلا ان مسائل سے چشم پوشی کیسے کر سکتا ہے۔ اسرار بھائی بھی ایک حساس ذہن شاعر ہیں۔ وہ اپنے گرد وپیش کی اشیاء اور ماحول کی نا ہمواریوں کو شعری پیکر میں خوبصورتی کے ساتھ ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ان کے درج ذیل اشعار دیکھیں جو عصری آگہی کا اشاریہ بن گئے ہیں۔
کھو گئے آہ و بکا میںبہہ گئے اشکوں میں ہم۔دیکھنے نکلے تھے دنیا میں کوئی مسرور ہے
جن کی ماضی پہ نظر ہے وہ یہی کہتے ہیں۔آدمی ہوگیا اس دور کا خوں خوار بہت
جب بھی اخبار اٹھایا کوئی پڑھنے کے لئے۔قتل و غارت کے نظر آئے سماچار بہت
تمام شہر کو بے رحم کیوں سمجھتے ہو۔ابھی ہیں لوگ جو غم کی زباں سمجھتے ہیں
نئی غزل میں عموماً جمالیاتی اور رومانی موضوعات سے روگردانی کا رجحان پایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ان موضوعات کو سلیقے اور شائستگی کے ساتھ شعر میں ڈھالا جائے تو شعر کی تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور وہ خالص غزل کا شعر بن جاتا ہے کیونکہ تمام تر تبدیلیوں کے باوجود غزل کا بنیادی موضوع یہی رہا ہے۔ حالانکہ غزل کے لئے موضوعات کی کوئی قید نہیں رہی بلکہ موضوعات کا تنوع ہی اس کی مقبولیت کا ایک بھید ہے لیکن رومانیت کی یہ کشش اور تاثیر انسانی فطرت کی ترجمانی کرتی ہے۔اسرار بھائی کی شاعری میں ایسے اشعار کی کمی نہیں جو شاعر کے رومانی و جمالیاتی شعور کی عکس ریزیوں کے باوجود دامن دل کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ در ذیل اشعار دیکھیں جو ان کے جمالیاتی شعور کا نچوڑ کہے جا سکتے ہیں۔
سرِ محفل تمھاری گفتگو سے۔فضا مہکی ہے خوشبو چار سو ہے
عیاں ہو رہا ہے وہ چہرے سے ان کے۔جو اسرار دل میں چھپائے ہوئے ہیں
ترے غم کے صدقے کہ سارے غموں سے۔مری جان پہچان سی ہو گئی ہے
آج کی غزل ثقیل الفاظ و تراکیب اور دورازکار تشبیہات و استعارات کا بوجھ ڈھونے سے انکار کرتی ہے۔ اس سچائی سے روگردانی شاعر کی ناکامی کی ضامن ہے کیونکہ اب نہ وہ قاری اور سامع رہے اورنہ وہ ادبی ماحول۔اسرار بھائی نہایت سادہ سلیس زبان میں برجستہ اشعار نکال لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک اوسط درجے کا قاری یا سامع بھی ان کے اشعار سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ اسرار بھائی کی شاعری قدیم و جدید شعری رجحانات ،خارجی مشاہدات اور ذاتی تجربات کے امتزاج و توازن سے عبارت ہے۔ انھوں نے کلاسیکی طرز کو ملحوظ رکھتے ہوئے جمالیاتی تسکین و انبساط کی کیفیت بھی پیدا کی ہے اور غزل کی نئی جہتوں اور نئی حسیت سے وابستگی کو شعری پیکر بھی عطا کئے ہیں۔
میری گفتگو اسرار بھائی کی غزل تک ہی محدود رہی ان کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے ۔انھوں نے نظمیں بھی لکھی ہیں اور حمد و نعت و مناقب کا اچھا خاصا سرمایہ یاد گار چھوڑا ہے۔ نعتوں کا مجموعہ’لیکن ’یا نبی‘‘ اور مجموعہ مناقب’’ عقیدت کے چراغ‘‘ بھی شائع ہو کر مقبول عام کا شرف حاصل کرچکے ہیں ۔غزلوں کا دوسرا مجموعہ’’خیالوں کا سفر ‘‘بھی منظر عام پر آرہا ہے۔ ملک کے نامور ادبا و شعرا نے اسرار بھائی کے فن اور شخصیت پر اظہار خیال کیا ہے وہ بھی ترتیب پاکر ’’داد سخن‘‘ کی صورت میں اشاعت کے مرحلے میں ہے۔علاوہ ازیں کئی رسائل میں ان کی شخصیت اور فن پر گوشے شائع کر کے اسرار فہمی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ لائق تحسین و ستائش بھی ہے اور اسرار نوازی کا ثبوت بھی۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages