Breaking

Post Top Ad

Your Ad Spot

Thursday, March 26, 2020

پُرسہ Pursa (Afsaana)

 ایڈ وکیٹ حبیب ریتھ پوری(ریتھ پور)

مکان نمبر135/15
ضلع امراوتی ۴۴۴۷۰۴(مہاراشٹر)

            پُرسہ 


 امین کے چوتھے اور سب سے چھوٹے بیٹے کا ابھی ابھی نکاح ہوا ہے۔ مبارک سلامت کے ساتھ نوشہ کے دوست و احباب اس سے گلے مل کر مبارک باد کہہ رہے ہیں ۔رشتہ دار اور دیگر ہم عمر دوست امین سے بھی گلے مل کر مبارک باد دے رہے ہیں۔ لیکن ایسے خوشی کے موقع پر امین کے آنکھوں سے آنسو ٹپک کر اس کے مرجھائے ہوئے جھریوں بھرے گالوں پر جھر جھر بہہ رہے ہیں ۔دوست احباب خوشی کے آنسو سمجھ کر اُسے ہنس ہنس کر سمجھا رہے ہیں ۔مگر آنسو ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ دوست و احباب اور رشتہ داروں کے سمجھانے کا اس پر کوئی اثر  ہوتادکھائی نہیں دے رہا ہے۔
ایسے میں اس کا چوتھا بیٹا جو دولہا بنا ہوا ہے اس کے قریب آتا ہے اور اس سے گلے ملتا ہے۔ بیٹے کا گلے ملنا تھا کہ امین پھپھک پھپھک کر رونے لگا۔لوگ حیران و پریشان اس خوشی کے موقع پر یہ دُکھ بھرا منظر دیکھ کر ہر کوئی ایک دوسرے سے امین کے رونے کا سبب معلوم کرنے کے لئے پوچھ رہا تھا۔امین اس طرح کیوں رو رہا ہے؟ مگر ہر شخص انجان بنا جواب دینے سے قاصر ہے۔در اصل بات یہ تھی کہ امین کا ذاتی کرب اور المیہ عود کر آیا تھا جسے وہ اور وہ صرف محسوس کرہا تھا۔ جو کچھ اس پر گزر چکا تھا ،جو کچھ بیت رہی تھی س سے وہ صرف اکیلا واقف تھا ۔مگر مجبوری یہ تھی کہ وہ اپنا دکھ اپنا کرب اپنا المیہ نہ تو ظاہر کرسکتا تھا اور نہ کسی کو سنا سکتا تھا۔ اس کی زندگی کا ایک ایک منظر اس کی نظروں کے سامنے آتا…پھر محو ہوجاتا۔اس کی جگہ دوسرا منظر اُبھرتا … پھر وہ بھی محو ہوجاتا…اور پھر اگلا منظر اُبھرتا۔
انتہائی غربت میں بچپن گزرا ،بچپن کی کوئی بھی یاد خوش گوار نہ تھی۔ کھانے پینے کو بھی ڈھنگ سے کچھ میسّر نہ تھا ۔باقی خوشیوں اور عیش کا توکوئی تصور نہ تھا۔
جوں توں کرکے زندگی کے دن پلٹے ۔چھوٹے موٹے کام کرتے کرتے ایک دن اُسے سرکاری ملازمت مل گئی۔ تنخواہ تو کوئی خاس نہ تھی مگر اوپری آمدنی سے ہاتھ میں پیسہ کھیلنے لگا۔پھر شادی ہو گئی۔ ہاتھ میں آنے والاپیسہ بیوی کی تحویل میں چلا گیا۔مگر اب زندگی کے رنگ ڈھنگ بدل گئے تھے۔ کھانے پینے کے علاوہ بھی زندگی کے لوازمات حاصل ہونے لگے ۔کھاتا پیتا سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے سماج میں بھی جگہ ملنے لگی تھی ۔محفلوں میں مقام ملنے لگا تھا۔

شادی کے دس برس بعد اوپر تلے ایک کے بعد ایک چار بیٹے پیدا ہو گئے  میاں بیوی کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہ رہا۔اب ہر جگہ وہ دونوں میاں بیوی اپنے بیٹون کی ہونہاری کے چرچے کرنے لگے ۔ان کے تعلق سے نئے نئے خواب دیکھنے لگے۔ان کے بیٹے ان کے لئے فخر و غرور کا سامان بن گئے۔بیٹی نہ ہونے سے انھیں ایک الگ قسم کا سکون اور اطمینان بھی تھا ۔بیٹی پرایادھن،پال پوس کر بڑا کرو،دولت لٹا کر گھر خالی کر لو ،کہہ کر وہ اور زیادہ مسرور ہو جاتے۔
ایک دن ایک تجربے کار بڑھیا نے انھیں ٹوکا۔
سونا پہنی تو ڈھانک کر چل…پوت جنی تو نیو کر چل 
ہونا تو یہ چاہئے تھا اس ضعیفہ کی بات سے انھیں ہوش آجانا چاہئے تھا ،مگر اس کا نتیجہ اُلٹا نکلا ۔امین کی بیوی نے اس ضعیفہ سے وہ لڑائی لڑی جس میں چار وناچار امین کو بھی شریک ہونا پڑا کہ ضعیفہ نے توبہ کر لی۔ پھر تو سبھی محتاط ہو کر ان دونوں میاں بیوی سے بات کرتے تھے۔ بیٹے بڑے ہوتے گئے ، تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اب ان کی زندگی اور ان کی مستقبل کی فکریں دونوں میاں بیوی کو ستانے لگیں۔
گاؤں میں آباء واجداد کا موروثی مکان تھا۔مکان تھا تو کچا ،اور زمین کے اے مختصر حصے پر بنا ہوا تھا ۔مگر اس کے چاروں طرف بہت ساری کھلی زمین تھی۔ انھوں نے اس موروثی مکان کی جگہ نیا مکان بنانے کا ارداہ کیا۔بیٹوں کی تعداد کے پیش نظر اور آئندہ جب کبھی بٹوارے کی نوبت آئے تو اس وقت کسی قسم کی کوئی الجھن پیدا نہ ہو ،کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہ ہو ،اس لئے اس طرح منصوبہ بندی کی گئی کہ ہر بیٹے کو ہر قسم کی سہولت کے ساتھ ایک ایک حصہ مل جائے۔سامنے آنگن، ایک بڑا ہال ، دو بیڈ روم،ایک کچن ،لیٹرین باتھ روم ،ٹیرس پر جانے کے لئے الگ الگ زینہ، غرض انتہائی باریک بینی سے منصوبہ بنا کر مکان کی تعمیر کی گئی۔
سب سے بڑا بیٹازیادہ تعلیم حاصل کر نہیں سکا  اس لئے اس کے لئے مارکیٹ میں مناسب جگہ دیکھ کر ایک دوکان خرید کر اس کا کاروبار شروع کروا دیا۔ تاکہ آمدنی کا ذریعہ بڑھ جائے اور اس کے لئے ذریعۂ معاش بھی ہو جائے۔ پھر اس کے شادی کا ارمان دونوں میاں بیوی کے دلوں میں مچلنے لگا۔ دل کھول کر دولت لٹا کر دل کے سارے ارمان نکالے گئے۔گھر میں بہو آگئی۔سوچا تو یہ تھا کہ بہو کے ساتھ ساتھ گھر میں خوشیاں بھی آئیں گی مگر ہوا بالکل اُلٹا۔ابھی شادی کے پانچ جمعے
بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ گھر میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ بہو کی فرمائش پر بیٹے نے خاندان سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا اور وہ الگ بھی ہوگیا۔ گھر کے بڑے سے آنگن میں تقسیم کی پہلی دیوار کھڑی ہو گئی۔ بڑے ارمانوں سے بنائے مکان کا ایک حصہ امین کے لئے پرایا گھر بن گیا ۔
دوسرے بیٹے کو ملازمت مل گئی ،اس کی بھی شادی کردی گئی۔ شادی کے فوراًبعد وہ اپنی بیوی کو لے کر ملازمت کے لئے شہر میں کرایہ کا مکان لے کر رہنے لگا۔بڑے بھائی کی راہ پر چلتے ہوئے اپنے حصے کے مکان کو تو پہلے تالا لگا دیا بعد میں آمدنی بڑھانے اور شہر کے مکان کا کرایہ ادا کرنے میں سہولت ہو اس لئے اس نے اپنا حصہ کرایہ پر اٹھا دیا۔ بڑے آنگن میں دوسری دیوار کھڑی ہو گئی۔امین کے لئے گھر کا وہ حصہ بھی بیٹے کے ساتھ ساتھ پرا یا ہو گیا ۔
تیسرے بیٹے کی شادی ہوئی ،اسے سسرال اس قدر پسند آگیا کہ اس نے ماں باپ سے خون کا رشتہ توڑ کر سسرال میں رشتہ داروں کو اپنا سب کچھ مان لیا ۔ اور وہیں جاکر بس گیا۔ دونوں بڑے بھائیوں کے نقش قدم ا سکے سامنے تھے۔ انھیں نقش قدم پر چل کر اس نے بھی اپنے حصے کو مقفل کردیا۔ اور آنگن میں ایک اوردیوار کھڑی ہوگئی۔ اب امین کی آمد ورفت اور ملکیت گھر کے بچے ہوئے چوتھائی حصے تک محدود ہو کررہ گئی۔ سنا ہے کہ تیسرے اپنے حصے کا مکان فروخت کر کے سسرال میں مکان خریدنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہ خبر امین پر بجلی بن کر گری…مگر وہ مجبور محض بنا سنتا رہا۔ 
وقت گزرتا رہا …چوتھا بیٹا بھی جوان ہو گیا ۔چوتھے بیٹے کے جوان ہونے کے ساتھ ہی اسے خود بوڑھا ہونے کا احساس ہو نے لگا۔ ملازمت سے سبکدوشی ہو گئی ۔ملے ہوئے پیسے سے چوتھے بیٹے کی شادی سے سبکدوشی کاخیال سے بے چین کرنے لگا ۔گزشتہ تین تین تلخ تجربات کے باوجود ایک موہوم سی امید کے سہارے یہ آخری داؤ کھیلنا بھی ناگزیر ہو گیا…اور…
ابھی ابھی اس چوتھے بیٹے کا نکاح ہوا ہے ۔لوگ گلے مل کر مبارک بادی دے رہے ہیں۔ اور امین پھوٹ پھوٹ کر پھپھک پھپھک کر رو رہا ہے۔ سب لوگ خوشی کے آنسو کہہ کر ہنسی مذاق میں ماحول کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ مگر آنسو ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ امین سوچ رہا ہے کہ یہ لوگ مجھے مبارک باد دے رہے ہیں یا آخری داؤ ہار جانے پر میرا مذاق اڑا رہے ہیں …یا پھر…مجھے میرے چاروں بیٹوں کاپُرسہ دے رہے ہیں۔ 
٭٭٭ 

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages