Breaking

Post Top Ad

Your Ad Spot

Thursday, March 26, 2020

ارود شاعری کے ارتقاء میں شعرائے بہار کا حصہ Urdu Shayeri Ke Irtiqaa Mw Shuray-e-Bihaar Ka Hissa

توصیف احمد ڈار(ریسرچ اسکالر)

Dpt: Of Uru.KashmirUniversity
HazratBal.Srinagar-190006(J&l)

 ارود شاعری کے ارتقاء میں شعرائے بہار کا حصہ

اردوزبان و ادب کی ترقی و ترویج میں جہاں ملکِ ہندوستان کی دیگر ریاستوں (جن میں دہلی ، لکھنو، حیدرآباد ، یوپی، پنجاب اور جموں و کشمیروغیرہ قابل ذکر ہیں ) نے نمایاں رول ادا کیا ہے وہیں اس سلسلے میں بہار ( دبستان عظیم آباد ) کے کارناموں سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ۔ سرزمینِ بہار سے بہت سارے شعراء و ادباء ایسے پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی تخلیقی اور فنکارانہ صلاحیتوں سے اردو ادب کو نہ صرف جلا بخشی بلکہ اسے عالمی سطح بھی عطا کی ۔ راجہ پیارے لال الفتی ، خواجہ امین الدین امین ، سید جمال حسین جمال ، خواجہ محترم علی خان محترم ، مولانا سید شاہ وارث علی ، فرشتہ وغیرہ اس سلسلے میں قابلِ ذکر ہیں ۔ مذکورہ تمام شعرا بہار کی شعری روایت کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے کلام کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں موضوعات کا تنوع اور ہئیت و تکنیک سے واقفیت بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ان کے مزاج میں کلاسکیت اور زبان و بیان میں صفائی اور سادگی پائی جاتی ہے ۔ اگرچہ بعض فنی خامیاں ان کے یہاںپائی جاتی ہیں لیکن اس کی تاویل یوںپیش کی جا سکتی ہے کہ چونکہ یہ ابتدائی دور سے وابستہ شعرا گزرے ہیں اس لیے ان کے یہاں فنی ناپختگی کی نشاندہی باعثِ عیب نہیں ہے ۔ سید سلیمان ندوی ؔکے درجہ ذیل اقتباسات(جو انہوں نے یقیناً بہار کی ابتدائی شعری روایت سے متاثر ہوکر قلمبند کیے ہیں )‘ اردو ادب کے لئے بالعموم اورادباء و شعرائے بہار کے لیے بالخصوص انمول ثابت ہوئے ۔ وہ لکھتے ہیں :
  ’’ عصر جدید ہمارے صوبے (بہار ) میںبھی پیدا ہوا ہے اور بعض اچھے اچھے شاعر اس میدان میں کمال کا جوہر دکھا رہے ہیں ۔ ہمارا بوڑھا لیکن ہمہ داں شاعر فضل آزاد ہمارے صوبے میں جدید کا بانی ہے ۔ معاصرین میں تمنا پھلواروی فنون سخنوری میں کامل ہیں ۔ ڈاکٹر عظیم الدین کا تخئیل بڑی وقعت رکھتا ہے ۔ نجم گیلانی اگرچہ توجہ کرتے تو شاعری کے آسمان میں ستارہ بن کر چمکتے ۔ خودہمارے دوست و رفیق درس انجم صاحب کسی سے کم نہیں ، مگر کاروباری طبیعت نے ان کی شاعری کو کاروباری بنادیا ہے ، یعنی مجبور ہوں گے توکہیں گے ورنہ نہیں ۔ نوجوانوں میں رضی عظیم آبادی ، صبا رشیدی ، نجم ندوی وغیرہ ابھرے ہیں ۔ مقصود ناموں کا گنانا نہیں بلکہ 

یہ دکھانا ہے کہ طبیعتیں آمادۂ ترقی ہیں ۔ ـ‘‘ 
دوسرا اقتباس اصلاحی نقطۂ نظر کا حامل ہے ۔سید سلیمان چونکہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں، انہیں ادبی اقدارو روایات پر گہری نظراور فنی خوبیوں کا پاس و لحاظ ہمیشہ رہا ہے ۔وہ ایک دردمند دل رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ موصوف نے جہاں کہیں بھی شعرا حضرات میں کسی بھی طرح کی گمراہی ،عجلت بازی اور سطحی جذباتیت کے عناصر دیکھے انہیں دور کرنے کی ممکن حد تک کوشش کی ہے ۔ لکھتے ہیں :
  ’’ ضرورت یہ ہے کہ ہمارے نوجوان شعراء گمراہیوں سے بچیں جن میں اس عہد کے دوسرے صوبوں کے نوجوان شعراء مبتلاء ہیں ۔ ایک یہ کہ کلام کی اشاعت میں جلد بازی اور عجلت سے پرہیز کریں اور بار بار کی نظر سے جب تک صحیح لفظ و معنی کا یقین نہ ہوجائے اس کو منظر عام میں پیش نہ کریں ۔ ہوسکے تو پرانے عہد کے ممتاز شعرا سے اصول فن کے نکتے سیکھیں ۔ فن سے جہالت (غفلت ) نوجوانوں کی عادت بن رہی ہے ۔سطحی اور عمومی جذبات کے اظہار میں شرافت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ۔ فارسی ترکیبوں کا استعمال اعتدال کی حد سے زیادہ نہ ہو ۔ پھر یہ لحاظ رکھا جائے کہ جو نئی ترکیبیں پیدا کی جائیں وہ فارسی کے محاوروں کے مطابق صحیح بھی ہوں ۔ ‘‘ 
  (درجہ بالا دونوں اقتباسات سید سلیمان ندوی کے رسالے ’’ندیم ‘‘ میں چھپے مضمون ’ نوجوانانِ بہار اور خدمت ادب ‘ سے لیے گئے ہیں )
  ندوی ؔصاحب جہاں ایک طرف ان اسباب کو نشان زد کرتے ہیں جن سے ادب پارے کا معیار بگڑتا جاتا ہے لیکن دوسری طرف ہماری توجہ کو اس جانب بھی مبذول کراتے ہیں کہ بہار میں ایسے شعراء کی بھی کمی نہیں جو شاعری کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف ہیں اورجن کے یہاں موضوعاتی اور ا سلوبیاتی اعتبار سے نمایاں وسعت اور تنوع موجود ہے ۔ 
  راسخ عظیم آبادی ، جمیل مظہری ، مبارک عظیم آبادی ،بیدل عظیم آبادی ، ارمان آروی ، شاد عظیم آبادی وغیرہ بہار جیسی زرخیز سر زمین سے تعلق رکھنے والے ایسے شعرا ہیں جن کی اہمیت و عظمت کا اعتراف ادبی حلقوں میں کیا جاتا ہے ۔ ان شعرا کے یہاں کلاسکیت کا میلان ، مضمون آفرینی کے ساتھ ساتھ زبان و بیان پر خاصی توجہ ملتی ہے ۔ان کے کلام میں جوش کا تجربہ ،مشاہدہ،حسن سے فطری لگاؤ ، زندگی کی
رعنائیاں وغیرہ سب کچھ شامل ہیں۔ چند اشعار بطورِ مثال کے پیش کرتا ہوں : 
 کوئی حیران ہے یاں کوئی دلگیر۔  کہے تو ہے یہ عالم بزم تصویر 
        جب تجھے خود آپ سے بیگانگی ہو جائے گی ۔ آشنا تب تجھ سے وہ دیر آشنا ہوجائے گا        ( راسخ عظیم آبادی)
دریا کا بہاؤ دیکھتا ہوں ۔ تنکوں کا بہاؤ دیکھتا ہوں 
 پردہ حائل جو تھا کہاں ہے اب۔ تیرا جلوہ ہی درمیاں ہے اب 
                 ( جمیل مظہری )
تھا اجل کا میں میں اجل کا ہوگیا ۔ بیچ میں چونکا تو تھا پھر سو ہوگیا 
 نظر کی برچھیاں جو سہ سکے سینہ اسی کا ہے۔ ہمارا آپ کا جینا نہیں جینا اسی کا ہے 
                  ( شاد عظیم آبادی )
اس گلی میں ہزار غم ٹوٹا ۔ آنا جانا مگر نہیں چھوٹا
 ادھر چٹکی وہ دل میں لے رہے ہیں۔ ادھر اک گدگدسی ہو رہی ہے 
                                     ( مبارک عظیم آبادی ) 
۱۹۸۰ ء کے بعد کے دور کو ادبی اصطلاح میں مابعد جدیدیت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ مابعد جدیدیت ہر طرح کی کلیت پسندی سے انکارکرکے تخلیقی آزادی پر زور دیتی ہے۔یہی وہ دورہے جس میں زندگی اور معاملات ِزندگی سے متعلق روایتی تصورات میں تبدیلی رونما ہوئی اور ان کی جگہ نئے تصورات نے لے لی ۔زندگی کے ہر شعبے میں ایک انقلاب سا بپا ہوگیا۔ ادیب و شاعر چونکہ حساس شخصیت کا مالک ہوتا ہے وہ جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے یا تجربات کے ذریعے حاصل کرتا ہے اسی کو اپنی تخلیقات میں پیش کرتا ہے ۔ جدید نسل کے فنکاروں نے جہاں ترقی پسندی اور جدیدیت کے مثبت قدروں کو قبول کیا ہے وہیں مغرب کے نو بہ نو افکار کے شانہ بشانہ اپنے قدیم علمی سرمایے سے بھی روشنی حاصل کی ہے ۔ اس لحاظ سے شعرائے بہار کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ۱۹۸۰ء کے بعد بہار میں شعراء کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جنہوں نے صنفِ غزل اور نظم میں اپنے کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں ۔ اس مختصر سے مضمون میں چونکہ یہاں کے تمام قلم کاروں کا الگ سے جائزہ پیش کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ یقینا ناممکن بھی ہے اس لیے بعض مخصوص شعرا کی بے لوث ادبی خدمات کو سامنے لانے پر ہی اکتفا کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ نعمان شوقؔ کا شماربہار کی نئی نسل کے شعراء کی صفِ اوّل میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے غزل گوئی کے ساتھ ساتھ نظم نگاری میں بھی اپنے خیالات و احساسات کی ترجمانی کی ہیں۔ان کے کلام میں دکھ درد ، غمگینی و مایوسی کے علاوہ فلسفیانہ اور احتجاجی عناصر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ حسن و عشق ، سراپانگاری اور انسانی نفسیات وغیرہ جیسے موضوعات کو بھی وہ اپنے کلام میں برتتے ہیں لیکن بڑے سلجھے اور دانستہ انداز میں ۔ وہ جذباتی سطحیت اور جنسی عریانیت کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے‘ یہی ان کی کامیابی کا بنیادی زیور ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں درجہ ذیل اشعار:   ؎
 مرا کچھ راستے میں کھو گیا ہے ۔ اچانک چلتے چلتے رک گیا ہوں 
 کنارے پاؤ ں سے تلوار کردی ۔ ہمیں یہ جنگ ایسے جیتنی تھی 
 خواہ دیوالی ہو تیرے شہر میں یا شب برات۔ حق پرستوں کے لئے تو شب عاشور سب 
 راشد انوار راشد نعمان شوق کی فنکارانہ کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 
 ’ نعمان کے یہاں عشق کا قدرے نکھراہوا تصور دیکھنے کو ملتا ہے ۔ محبوب کے تعلق سے ایک خاص طرح کی عقیدت اور احترام ان کے اشعار میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ سطحی لذتیت انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ جنس غالب رجحان کی صورت میں اجاگر نہیں ہوتا اور اگر کہیں اس کا عکس دکھائی بھی دیتا ہے تو فنکارانہ برتاؤ کے باعث اس کا ذائقہ سلجھے ہوئے ذہن کے لیے بھی قابل قبول ہو جاتا ہے ۔ ‘‘ 
            (جواز و انتخاب ، ترتیب : کوثر مظہری  )
  خالد عبادی ؔبہار سے وابستہ ایک جواں سال شاعر ہیں ۔ ان کی موضوعاتی تنوع مندی اور زبان و بیان پر بے پناہ قدرت انہیں ایک منفرد مقام عطاکرتی ہے ۔ اردو کے عظیم شاعروں کی طرح وہ بھی روایت سے یکسر بغاوت نہیں کرتے بلکہ اس سے اخذ و استفادہ کرتے ہوئے اپنے کلام کو نئی جہتوں سے آشنا کرتے ہیں ۔ ان کی زندگی کے بیشتر لمحات چونکہ افسردگی میں گزرے ہیںجس کی عکاسی ان کے یہاں پائی جاتی ہے لیکن وہ زندگی کی زبوںحالی کا واویلا نہیں کرتے بلکہ بہادری اور دلجمعی سے اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اسی عمل کی تلقین کرتے ہیں یہی وہ نکتہ ہے جو انہیں شاعری کی صف میں اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے اور جس سے ان کے کلام میں اثر انگیزی پیدا ہوتی ہے ۔  ؎ ؎
سنا ہے اس طرف رخ کریں گے ۔ ترے دشمن مری جانب بڑھیں گے 
 شہر کا بھی دستور وہی جنگل والا ۔ کھوجنے والے ہی اکثر کھو جاتے ہیں 
 کبھی کبھیچپ ہوجانے کی خواہش ہوتی ہے ۔ ایسے میں تیرِستم کی بارش ہوتی ہے 
عطا عابدی ؔ کا شاعرانہ آہنگ نہایت رچاہوا اور دلکش ہے ۔ ان کی شاعری میں ماضی کی بازیافت ،جڑوں سے بچھڑنے کا غم ، زندگی کے نئے تقاضے ،زمانے کی ستم ظریفی اور دیہی زندگی کے پیچ و خم اور اسی قبیلے کے دوسرے موضوعات بنیادی اہمیت رکھتے ہیں ۔ ماضی سے دلچسپی کے ساتھ ساتھ زمانہ حال پر بھی ان کی گرفت مضبوط ہے ۔ استعارات و تشبیہات کا برملا استعمال ان کے کلام کو مزید تقویت عطاکرتا ہے ۔ چند اشعار نمونے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں ۔   ؎
 آئینے سے ڈرتا ہوں۔ عصر نو کا چہرہ ہوں 
 پس چہرہ ملا اک اور چہرہ۔ عقیدت پانی پانی ہو گئی ہے 
 یہ عجب شہر ہے انسان نہیں سایے ہیں یہاں۔ لاکھ ہمدرد ہوں دلی میں ، مگر مت آنا 
  مذکورہ بالاشعرا کے علاوہ کوثر مظہری ؔ، سلطان اختر ؔ ، منیر سیفی ؔ ، پرویز اسلم ؔ ،
انوری بیگم ؔ وغیرہ کا شماربھی ریاست بہار کے نامور شعرا میں ہوتا ہے ۔ان شعرانے غزل ، نظم ،اور صنفِ رباعی میں طبع آزمائی کرکے بہار کی شعری روایت کو ترقی و ترویج کی راہ پر گامزن کیا ہے یوں اس میں نہ صرف موضوعاتی اعتبار سے وسعت پیدا ہوئی بلکہ فنی و فکری طور پر بھی گہرائی و گیرائی در آئی ہے۔
  جہاں تک بہار میں موجودہ دور کی شاعری روایت کا تعلق ہے تو اس کا مستقبل یقیناً چمکیلا اور روشن نظر آتا ہے ۔ موجودہ دور میں الکٹرانک میڈیا ،موبئیل ، کمپوٹر ، انٹرنیٹ ، ٹیلی وژن وغیرہ جیسے جدید ذرائع ابلاغ نے انسانی زندگی اورسماج کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے ۔ ادب بھی چونکہ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے اس لیے ادب میں بھی اسلوبیاتی اور موضوعاتی سطح پر اس نئے پن کا اظہار بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ جدیدطرز احساس کم و بیش اردو کے تمام شعراء کے یہاں پایا جاتا ہے ، بہار کے شعراء بھی کسی قدر اس سے پیچھے نہیں۔ ان کے یہاں سیاسی ، سماجی اور تہذیبی قدروں کا شعور اور روایت کا پاس و لحاظ بدرجہ اتم موجود ہے ۔ وہ کسی بھی طرح کی نظریاتی حد بندی یا اِزم کو قابل قبول تصور نہیں کرتے بلکہ ان کا کلام ہر پہلو اور ہر لحاظ سے زندگی بخش اثر رکھتا ہے ۔ مذکورہ ریاست کے شعرا کی جدید تر فہرست میں نوشاد احمد کریمیؔ، شاکر خلیق ؔ، مناظر عاشق ہرگانویؔ ، ارمان نجمی ؔ ، طارق متین ؔ ، رفتق انجم ؔ فردوس گیاویؔ، منصور خوشترؔ ، تاج پیامیؔ وغیرہ کے علاوہ اور بھی بہت سارے نام شامل ہیں ۔     ؎
 تھا جو اک کافر مسلماں ہوگیا ۔ پل میں ویرانہ گلستاں ہوگیا 
 بہت بار گراں یہ زندگی معلوم ہوتی ہے۔ کہ غم کا پیش خیمہ ہر خوشی معلوم ہوتی ہے 
                                                  (منصور خوشتر)
بھگت رہا ہوں خود اپنے کئے کا خمیرہ۔ ٹپک رہا ہے جو آنکھوں سے یہ لہوتازہ ہے 
 کب شوق مرا جذبے سے باہر نہ ہوا تھا۔ تھا کون سا قطرہ جو سمندر نہ ہوا تھا 
                                                   (شاکر خلیق )
مخلص و ہمدرد بن کر جو کرے ہے رہزنی ۔ اس رفیق راہ کی بھی ہے رفاقت زلزلہ
                                               ( مناظر عاشق ہرگانوی)
  موجودہ دور جسے مشینی یا سائنسی دور کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ، نے ایک انسان کو کئی ساری الجھنوں میں قید کیا ہے ۔ زندگی کے روایتی تصورات ،عقائد، جنہیں بنیاد بناکر ایک انسان معاشرے میں اپنے شب و روز گزارتا تھا اور جن کے ہوتے ہوئے آپس میں ہمدردی ، بھائی چارگی ، محبت و شفقت کا بول بالا تھا ، موجودہ دور میں عنقا ہوچکے ہیں ۔ انسان دولت کی ہوس میں ڈوب کر انسانی صفات سے عاری ہوچکا ہے ۔ مشینوں سے کھیلتے کھیلتے وہ خود مشین کا ایک پرزہ بن کر رہ گیا ہے ۔ قدروں کی شکست و ریخت ، رشتوں کے ٹوٹنے بکھرنے کا عمل ، احساس تنہائی ، لایعنیت وغیرہ جیسے عناصر نے دور ِحاضر کے انسان کو اپنی قالب میں لیا ہے ۔ ادب اور ادیب بھی چونکہ سماج کی ہی پیداوار ہوتا ہے اس لیے وہ ان تمام عوامل سے کسی بھی طرح آنکھیں نہیں چراسکتا بلکہ ان محرکات کو ضبط ِ تحریر میں لاکر زندگی کو صحیح سمت دینے کی انتھک کوشش کرتا ہے ۔ بہارکے شعرا کے کلام میںبھی ان مسائل و معاملات کی عکاسی جابجا دیکھنے کو ملتی ہے ۔خطیب اللہ حمیدی کی ایک شہر آفاق نظم اس لحاظ سے قابل ِ توجہ ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں    ؎
  تم 
شہر جارہے ہو؍مجھے خوف ہے ؍کہیں کھو نہ جاؤ!
وہاں ؍کس سے؍کس کا؍پتہ پوچھو گے
ہر شخص خود لاپتہ ہے وہاں؍ہاں ہوسکے تو؍شہروالوں کو 
مٹی کا تحفہ زرادینا تم؍ان کا ہی؍ان کو پتہ دینا تم !
            (نظم : پتہ۔ازخطیب اللہ حمیدی)
  نظم بظاہر چھوٹے چھوٹے جملوں پر مشتمل ہے لیکن جن خیالات و احساسات کو اجاگر کرتی ہے وہ بلاشبہ نمایاں وسعت کے حامل ہیں ۔ شہری زندگی میں جذبات و احساسات کی پامالی ، بیگانہ پن ، ہمدردی و بھائی چارگی کا فقدان جو دورحاضر کا خاصّہ ہے ، کی نمایاں جھلک اس نظم میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ حمیدی ؔ کے علاوہ بہار سے وابستہ دیگر شعرا کے یہاں بھی اس طرزِ احساس کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ پروفیسر اسلم آزادؔ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔ان کے کلام کی ورق گردنی کرتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے لب و لہجے اور اسلوب ِ بیان میں ندرت اور جدت بدرجہ اتم موجود ہے ۔   ؎
اپنے چہروں پر نقابیں ڈال کر؍ خانقاہوں میں 
مسجدوں ؍ دانش کدوں میں بیٹھ کر؍ فلسفہ ؍ اخلاق کا 
آداب کا ؍ مہر و وفا کا؍ روز و شب دیتے ہیں درس 
اور ؍کچے ذہن؍ سادہ لوح؍ بہری اور گونگی نسل کو 
ان کی ننگی لاشوں کے انبار پر ؍ عشرت کدہ 
تعمیر کرنے کے لئے ؍ مکرو فریب؍ ابن سبا 
کوفیوں کا شہر ہے یہ 
                ( کوفیوں کا شہر :از پروفیسر اسلم آزاد )
  درج بالا نظم میں عصر حاضر کے استحصال بالخصوص سماج کے دبے کچلے اور نچلے طبقے پر جوجو ظلم و ستم روا رکھے جاتے ہیں ، اس کی دلکش عکاسی کی گئی ہے ۔ ذات ، حیات اور کائنات کے باہمی تعلقات اور معمہ صورت سوالات کو ابھارنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی سنجیدہ کوششوں پر مبنی پروفیسر اسلم آزاد ؔکی نظمیں ہیئتی و موضوعاتی اعتبار سے مختلف اور منفرد ہیں ۔ عالم خورشید ؔکا شمار بہار کے نمائندہ شعرا میں ہوتا ہے ۔ ان کے یہاں رٹے رٹائے موضوعات اور سطحی لفظیات کے برعکس ترو
تازگی ، انداز بیان میں ندرت و جدت اور موضوعات کی کثرت بخوبی موجود ہیں ۔ ان کی آزاد نظموں کا اختصاصی پہلو یہ ہے کہ وہ محدود فکری دائروں میں سفر نہیں کرتے بلکہ زندگی اور مسائل ِزندگی کی مختلف جہات کو فوکس کرتی ہیں ۔ ان کی نظمیہ شاعری میں پیکر تراشی قاری کو ایک ایسے جہاں کی سیر کراتی ہے جہاں جمالیاتی ، حسی ، سمعی اور بصری تقاضے ایک جگہ مجتمع ہوکر نئے باب کھولتے ہیں ۔ ’’کھوئے چہرے کی تلاش ‘‘ کے زیر عنوان ان کی ایک نظم ملاحظہ فرمائیں ۔ ؎
  بستی بستی ؍ صحرا صحر؍ کوچہ کوچہ؍ آنگن آنگن 
ڈھونڈ رہا ہوں ؍ پاگل سا ؍ درپن درپن دیکھ رہا ہے 
میرا چہرہ ؍میرا چہرہ؍ چیخ رہا ہے؍ بھیڑ میں شاید 
اس کا چہرہ بدل گیا ہے 
  ( نظم : کھوئے چہرے کی تلاش ۔ از : عالم خورشید ) 
  منظر صدیقی ، جمال اویسی ،ظہیر صدیقی وغیرہ جیسے نامور شعرا نے بہار کی شعری روایت کی ترقی و ترویج میں قابل قدر رول ادا کیا ہے۔ ان کی غزلیہ و نظمیہ شاعری میںاگرچہ رومانیت کی جھلکیاں قدم قدم پر دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن یہ رومانیت منفی یا سطحی کے بجائے تعمیری اور اقداری ہے ۔ انھوں نے اپنے کلام میں عصری مسائل کا احاطہ کیا ہیں۔ ان کے کلام میں سیاسی ، اقتصادی ، معاشرتی اور اخلاقی طور پر اجتماعی محاکمہ اورمحاسبہ ہی نہیں بلکہ پورا اجتماعی کرب اور دکھ درد کی دلدوز تصویریں اور دلفگار آوازیں ملتی ہیں ، یوں وہ اپنے ذاتی دکھ اور المیے کو عظیم اجتماعی المیے اور درد کے پس منظر میںرکھ کر اپنے احساسات کو سبک سار کر لیتے ہیں ۔وہ اپنی ذات کو اجتماع سے الگ نہیں گردانتے ہیں اس لئے ان کے ہاں جھنجھلاہٹ کی جگہ ٹھہراؤ ، رکھ رکھاو ، سنجیدگی اور متانت غالب ہے ۔  ؎
دھند میں کھوئے ہیں منظر سارے 
  پیچ در پیچ دھواں ہوتا ہے 
بھاگتا رہتا ہوں پر چھائیوں کی یورش سے 
  ہر جگہ اپنی اپنی تصویر مجھے ملتی ہے 
  (جمال اویسی )
  نہ لزتوں کا بحر تھا نہ خواہشوں کی وادیاں 
نہ دائرے عذاب کے نہ زاوئے ثواب کے 
بس ایک روشنی اسیر ذات تھی 
محیط کائنات تھی ازل سے بے لباس تھی 
  تو یوں کہ دفعتاً
میرے بدن کے پیرہن میں چھپ گئی 
تو لذتوں کا بحر موج زن ہوا 
تو خواہشوں کی وادیاں سلگ گئیں 
  تو دائرے عذاب کے پھسل گئے
  تو زاویئے ثواب کے مچل گئے
  عجیب واقعہ ہے
  آخر میں ڈاکٹر محمد کاظم کے مضمون ’’ بہار میں غزلیہ شاعری کا موجودہ منظر نامہ‘‘ کا یہ اقتباس پیش کرتا ہوں جس سے بہار کی عصری شعری روایت کے خدو خال واضح ہوجاتے ہیں اور اس امر کی تقویت بھی ہوجاتی ہے کہ ہندوستان کی دوسری ریاستوںکے مقابلے میں بہار کی شعری روایت قدرے تابناک اور مائل بہ ارتقا ہے۔۔ وہ لکھتے ہیں : 
  ’’موجودہ دور کی غزل گوئی پر غور کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ بہار کے شعرا کے یہاں ایک طرف موضوع میں تنوع اور خیالات کی رنگا رنگی نظر آتی ہے تو دوسری جانب پرانا اندازبیان جدت اختیار کرنے کے بعدنئی اشاریت ، نئی رمزیت کی شکل میں عام دکھائی دیتا ہے ۔ بلکہ اظہار کے نئے سانچے بھی تیار کیے جا رہے ہیں ۔ وہ ہئیت کی سطح پر ہو یا موضوعات کی ، وہ چھوٹی بحر ہو یا طویل ترین بحر میں اپنی بات کہنے کا منفرد انداز ، ہر دو صورت میں موجودہ نسل کے چند مگر خاص شعرا نہ صرف کامیاب نظر آتے ہیں بلکہ اپنے اجداد سے الگ بھی دکھائی دیتے ہیں ۔‘‘
٭٭٭

 ارود شاعری کے ارتقاء میں شعرائے بہار کا حصہ Urdu Shayeri Ke Irtiqaa Mw Shuray-e-Bihaar Ka Hissa
 ارود شاعری کے ارتقاء میں شعرائے بہار کا حصہ Urdu Shayeri Ke Irtiqaa Mw Shuray-e-Bihaar Ka Hissa

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages